مت پوچھیںکیاملتاہے خرقہ پوشوں سے! :میں آپ کو کیا بتاؤں کہ اس درس روحانیت وامن کی محفل سےکیا کچھ ملتاہے، میں آپ کو کیسے کیسے واقعات سنائوں، جو مجھے سننے کو ملتے ہیں۔ہر ہفتہ میں کوئی اپنی کیا کیفیت بتاتا ہے ، تو کوئی کیا بتاتا ہے،کئی خواتین و حضرات اپنے حالات خط کے ذریعے لکھ کے بھیجتے ہیں۔آپ کو کیا معلوم لوگ کتنا اﷲ کے دھیان کی طرف، اﷲ کی محبت کی طرف رجوع ہوئےاور ہورہے ہیں۔ پتہ نہیں! ان کی وجہ سے ہمارا بھی کام بن جائے۔ فرمایا: ایک تائب کی وجہ سے جب رحمت کی بارش ہوتی ہےتو قریب بیٹھنے والوں کو بھی ملتی ہے ا ور وہ بھی اس سے محروم نہیں رہتے ۔
سعادت سمجھیں،بوجھ نہ سمجھیں:وہ کریم ہے جب عطائوں پہ آتا ہے پھر برتن نہیں دیکھتا پھر دے دیتا ہے، وہ کریم ہے، بے نیاز ہے، وہ دینے پہ آتا ہے تو بےحساب دیتا چلا جاتا ہے۔ ان نسبتوں کے ساتھ جڑے رہیں۔ سعادت سمجھ کر، بوجھ سمجھ کے نہیں۔ بشاشت کے ساتھ،اپنی ضرورت سمجھ کے، اپنی نسلوں کی ضرورت سمجھ کے، اپنی دنیا و آخرت کی خیروں کا ذریعہ سمجھ کے، دنیا کی مصیبتوں کے دور ہونے کا ذریعہ سمجھ کے اور دنیا و آخرت کی مشقتوں سے دور ہونے کا ذریعہ سمجھ کے جڑے رہیں،اپنے آپ کو جوڑے رکھیں۔
عمل ایک کا، قبولیت سب کی :کیا پتہ ان دینی مجالس میں کوئی ایسا بندہ ہو جس نے بیٹھے بیٹھے رب کو منالیا ہویا اﷲ کو منانے کیلئے آیا ہو یا پھر اﷲ پاک اس سے محبت کرتے ہوں۔ جیسے کہتے ہیں مسجد میں نماز کی صفیںہوں، اس میں صفیں بہت ساری ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ہی بندہ ہوتا ہے ،اس کی وجہ سے سب کی نماز قبول ہوجاتی ہے اوربعض اوقات حج میں چند بندے ہوتے ہیں یا ایک بندہ ہوتاہے جس کی وجہ سے سب کا حج قبول ہوجاتاہے۔ کیوں اﷲ والو....؟
ایک اﷲ والے یہاں تک فرمانے لگے :لوگ قربانیاں کرتے ہیں ، پتہ نہیں ان کامال کیسا ہوتا ہے؟ بعض اوقات ان میں سے کسی ایک کی قربانی ایسی ہوتی ہے کہ اﷲجل شانہٗ اس کو مردود نہیں فرماتے اور اس کی وجہ سے اﷲسب کی قبول کرلیتے ہیں۔
رضا اوراطاعت ،ہماراجذبہ ہو: اس لئے اﷲ پاک جل شانہٗ نے ان سعادتوں کو پانے کے مواقع دئیے ہیں، کیوں...؟ ہم جڑے کس نسبت کے ساتھ ہیں؟ ہمارے اندر ایک جذبہ ہے کہ’’ یااﷲ تو راضی ہوجا اور تیرے حبیب سرور کونین ﷺکی محبت حاصل ہوجائے ‘‘۔ انشاء اللہ صرف یہی جذبہ ہے۔ ہمارے اندر یہ جذبہ بالکل نہیںہے کہ ہم ہوائوں میں اڑنے لگ جائیں،ہم سے کرامات ظاہرہونا شروع ہوجائیں۔ ہمارے اندرتو یہ جذبہ ہے ــــــ’’یااﷲ ہمارے اندر اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت کی زندگی اور اس پہ استقامت عطا فرما‘‘ اچھا اب ہمیں اس نیت کا پہلا اجرتو مل گیا۔ فرمایا :نیت کا اجر پہلے ملتا ہے۔ ایک اﷲ والے کہنے لگے :جو یہ نیت کرے یا اﷲ! مرتے دم تک اسی نیت کے ساتھ، اسی محبت کے ساتھ، اسی تعلق کے ساتھ رہوں گا۔اﷲ ایسا کریم ہے کہ موت تک اس کو، اِس کا اجر عطا فرما دیتے ہیں اوراس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔
اپنی نیت کودہراتے رہیں: ہم اس لئے مل بیٹھے ہیں کہ ’’یااﷲ تو راضی ہوجا اور تیرا حبیب سرور کونینﷺ کی محبت اور آپﷺ کا عشق نصیب ہوجائے‘‘ ہم اس لئے ملے ہیں، اس لئے بیٹھے ہیں! یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ فرشتے بھی سن لیں ویسے فرشتوں پر تو دل کی کیفیت بھی اﷲ پاک آشکارا کردیتے ہیں اور اگر کسی نے یہ نیت نہیں کی تو ایک دوسرے کو سن کے یہ نیت دہرالیں تاکہ نیت میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی نیت کی کمی بیشی کی وجہ سے اﷲ کی رحمت رک نہ جائے۔ نیتوں کے بھی اثرات ہوتے ہیں ۔ اس لیےاپنی نیت سوچوں جذبوں کو خالص اللہ کیلئے بنالیں۔ پھر ہی ایسی دینی مجالس کا نور اور برکات نصیب ہوتی ہیں۔
اﷲ والو! آپ کا آنامبارک ہو ،یہ بیٹھنا مبارک ہے، یہ میں آپ کو حقیقتاًعرض کررہا ہوں آج کے دور میں لوگ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کو بھول گئے ،ایسی مجالس ختم ہوگئیں، ان مجالس میں چند لوگ بیٹھ کے یا چند لوگ اس جذبے کے ساتھ آئے اور اس جذبے کو لے کر چلے گئے اور اس نیت سے پھر آئیں گے۔ کیاخیال ہے !اس جذبے پہ میرا رب قدر نہیں کرے گا........ ؟ اور اپنی عطاؤں کی بارش نہیں فرمائے گا........ ؟ اس سے بڑھ کرقدر دان کون ہے؟؟
مصروف اور فارغ کی عبادت کافرق: میرا رب توبہت ہی قدر دان ہے۔ فرمایا:’’ایک فارغ آدمی اﷲ کے حضور آیااورایک مصروف آدمی اﷲ کے حضور آیا۔مصروف آدمی نے فرائض پڑھے ، سنتیں پڑھیں، واجبات پڑھے، نفل نہیں پڑھے اس نے کہا: بعد میں گھر جاکے پڑھ لوں گا یا نہیں پڑھ سکا اور فارغ آدمی نے سارے نوافل پڑھے۔ واجبات ،سنت ، فرائض دونوں نے پڑھے ۔ اب جو حساب کتاب اور ثواب مصروف آدمی کو ملے گا وہ فارغ کو نہیں ملے گا حالانکہ اس نے تو عبادت زیادہ کی ہے لیکن میرا رب تو قدر دان ہے، وہ جانتاہے کہ مصروف آدمی کیا چھوڑ کر آیا ؟اور فارغ آدمی کیا چھوڑ کر آیا؟۔ یہ فرصت چھوڑ کر آیا ،میں نے اس کو دنیا کے جھمیلوں میں اور دنیا کی مصروفیت میں رکھا ہوا تھا ،یہ دنیا کی مصروفیت کو چھوڑ کرآیا۔ مصروف نے سوچا:چھوڑ....!! اب میرے رب نے مجھے بلایا ہے، میں نے رب کے پاس حاضری دینی ہے۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں